Alfia alima

Add To collaction

ساتواں چراغ

ساتواں چراغ
گرمی ہو یا سردی شمالی پہاڑی کی بلندیوں سے سرد ہوائیں مسلسل نیچے اترتی رہتی ہیں۔ کبھی تو بڑی بوجھل ہوتیں اور کبھی نسبتاً ہلکی۔ یہ ہوائیں جب بھی اس بے آب و گیاہ علاقے میں سے گزرتی تھیں تو کہیں بھی ٹھہرنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ کیونکہ کوئی دیوار، درختوں کی کوئی قطار ان کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی تھی۔ برابر آگے بڑھتی چلی جاتیں اور گو بابا صاحب کے مقبرے تک پہنچتے پہنچتے ان کی رفتار کبھی کبھی مدھم بھی پڑ جاتی تھی تاہم جس وقت بھی وہ اس مقبرے کی بوسیدہ دیواروں سے ٹکراتی تھیں تو دیکھنے والے کو فوراً یہ احساس ہو جاتا تھا کہ یہ دیواریں فی الفور زمین بوس ہو جائیں گی، مگر برسوں سے ہواؤں کا یہ عمل جاری تھا اور مقبرے کی یہ کمزور دیواریں بدستور اپنی اپنی جگہ پر کھڑی تھیں۔ یہ ضرور ہے کہ ان میں کہیں کہیں رخنے پڑگئے تھے اور ہواؤں کے جھونکے ان رخنوں میں سے گز ر کر ٹوٹے پھوٹے مزار کو چھوتے ہوئے آگے نکل جاتے تھے۔ 

یہ بابا صاحب کون تھے؟ ان کی یہ ابدی قیام گاہ کب تعمیر ہوئی تھی او ران دیواروں نے کب سر اٹھایا تھا؟ ان باتوں کا کسی کو بھی علم نہیں تھا۔ 

باباصاحب کے مقبرے سے ڈیڑھ میل دور جنوب کی جانب ایک چھوٹا سا گاؤں جی جی پور کے نام سے ضرور آباد تھا۔ لیکن اس گاؤں کا بوڑھے سے بوڑھا آدمی بھی ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصر تھا۔ 

اس گاؤں کو آباد ہوئے نصف صدی سے زیادہ مدت نہیں بیتی تھی۔ اس سے پہلے یہاں پانی ہی پانی تھا۔ پھر جب اس پانی کو مصرف میں لانے کے لیے ایک قریبی نہر میں منتقل کر دیا گیا تو دلدلی علاقہ سورج کی تمازت سے سوکھ کر اس قابل ہوگیا کہ یہاں لوگ کچے پکے مکان بنا سکیں اور ارد گرد دیہات میں رہنے والوں نے میلوں پھیلی ہوئی اس زمین کو دیکھا جہاں وہ آسانی سے مکانات تعمیر کر سکتے تھے، کھیت بنا کر فصلیں اگا سکتے تھے تو وہ ادھر آنے لگے اور چند ہی سال میں یہاں اچھی خاصی آبادی ہو گئی۔ 

اس گاؤں کا نام جی جی پور کیسے پڑا؟ اس سلسلے میں گاؤں کے پرانے لوگ بتاتے تھے کہ جب ان میں سے کسی نے سب سے پہلا مکان بنایا تو یہاں ایک جھونپڑی میں ایک بوڑھا شخص رہتا تھا جو بالعموم نیم عریاں حالت میں دکھائی دیتا تھا۔ 

اس شخص نے بتایا کہ وہ بابا صاحب کا مرید خاص تھا۔ چنانچہ وہ دن کا سارا وقت تو اپنی جھونپڑی ہی میں بسر کرتا تھا اور جیسے ہی شام کی تاریکی فضاؤں میں پھیلنے لگتی تھی باباصاحب کے مزار پر چلا جاتا تھااور تمام رات وہیں گزاردیتا تھا۔ 

باباصاحب کو ماننے والے لوگ مزار پر کچھ نہ کچھ نذر و نیاز چڑھاتے رہتے تھے۔ یہ شخص اس میں سے تھوڑا سا حصہ وصول کر کے باقی زائرین ہی میں بانٹ دیتا تھا اور یوں اس کے لیے قوت یا صحت کا سامان مہیا ہو جاتا تھا۔ 

گاؤں کا نام اسی شخص کی نسبت سے مشہور ہواتھا۔ اس کا حقیقی یا پیدائشی نام کیا تھا کسی کو بھی معلوم نہیں تھا اور نہ وہ کسی کو اپنے بارے میں معلومات بہم پہنچانے کا خواہش مند ہی تھا۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ وہ ہر دوسرے فقرے پرجی جی کہتا تھا، یوں کہنا چاہیے کہ جی جی اس کا تکیہ کلام تھا۔ اس کے پاس عقیدت سے آنے والوں نے اسے باربار جی جی کہتے سنا تو اس کا نام ہی جی جی میاں لینے لگے اور اس طرح یہ گاؤں جی جی پور مشہور ہوگیا۔ 

گاؤں والے جی جی میاں کا بہت احترام کرتے تھے اور جو کچھ وہ کہتا تھا اسے صحیح تسلیم کر لیتے تھے۔ اس جی جی میاں نے گاؤں کے خاص خاص لوگو ں کو بتایا تھا کہ بابا صاحب بڑے اونچے درجے کے بزرگ تھے۔ مگرطبیعت کے لحاظ سے تھے جلالی۔ بڑی جلدی جلال میں آجاتے تھے اور بڑے سے بڑے آدمی کو بھی بلاتکلف جھڑک دیتے تھے۔ 

شاید انہی جی جی میاں نے بتایا تھا اگر بابا صاحب کے مزار پر ہر جمعرات کو مٹی کا ایک چراغ جلایا جائے تو ساتویں جمعرات کو جب آخری چراغ جلایا جائے گا تو چراغ چلانے والے کی دلی آرزو پوری ہو جائے گی۔ 

چراغ جلایا جاتا تھا مگر ابھی اسے مزار پر رکھا ہی نہیں جاتاتھ کہ شمالی پہاڑوں کی طرف سے آنے والی سرد ہوائیں 

اسے بجھا دیتی تھیں۔ گاؤں میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہوگا جسے اس کاعلم نہیں تھا اور جس کے دل میں یہ یقین جاگزیں نہیں تھا کہ ساتویں جمعرات کو چراغ جلانے والے کی آرزو ضرور پوری ہو جاتی ہے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس آزمائش پر پورا اترنا قریب قریب ناممکن تھا۔ ہوتا یہ تھا کہ اول تو پہلی جمعرات ہی کو چراغ کی لو شمالی ہواؤں کے حملے سے سیاہ پوش ہو جاتی تھی اور اگر پہلے دو تین چراغ صحیح سلامت مزار تک پہنچ بھی جاتے تھے تو ان کے بعد جو چراغ جلایا جاتاتھا وہ ضرور بجھ جاتاتھا۔ عام یقین یہ تھا کہ اب تک جو کوئی شخص بھی یکے بعد دیگرے سات چراغ جلانے میں کامیاب نہیں ہو سکا تو اس کی وجہ بابا صاب کی جلالی طبیعت کی کارفرمائی ہے۔ ورنہ شمالی پہاڑوں کی بلندیوں سے آنے والی سرد ہواؤں کا یہ کہاں حوصلہ کہ وہ عین اس لمحے دیوار کے روزنوں سے اندر آئیں جب مزار کے قریب چراغ جلایا جاتا ہو۔ یوں ساتواں چراغ جلانے کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی تھی البتہ بعض لوگوں کی زبانی یہ بات سنی جاتی تھی کہ کافی مدت ہوئی ایک بار ایک دھوبن نے مزار پر ساتواں چراغ بھی جلادیا تھا اور اس کی مراد بھی پوری ہو گئی تھی۔ اس کا بیٹا جوقتل کے مقدمے میں ماخوذ تھا پھانسی کی کوٹھڑی سے باہر نکل آیاتھا۔ 

اس حقیقت کی تصدیق اس وجہ سے نہیں ہو سکتی تھی کہ یہ ماں اور بیٹا دونوں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ 

اگر کوئی شخص مقبرے کے اندر جانے کی بجائے اس کے اردگرد گھومتا تو اسے بے شمار ٹوٹے ہوئے مٹی کے چراغ نظرآجاتے۔ یہ وہ چراغ تھے جو مزار پردو دو تین تین یا زیادہ سے زیادہ چار چار کی تعداد میں جلے تھے اور چونکہ یہ چراغ جلانے والے وہ شرط پوری نہیں کر سکے تھے یعنی سات جمعراتوں تک سات چراغ نہیں جلا سکے تھے اس لیے ان کے چراغ مزار سے اٹھا کر باہر پھینک دئیے گئے تھے تا کہ نئے مرادیں مانگنے والوں کو بھی قسمت آزمائی کاموقعہ ملتا رہے۔ 

یہ چراغ باہر کون پھینک دیتا تھا اس سوال کے مختلف جواب دیئے جاتے تھے۔کچھ لوگ کہتے تھے کہ باباصاب کے واحد مرید جی جی میاں جو ایک روز چپ چاپ اپنی جھونپڑی چھوڑ کر اس طرح غائب ہو گیا تھا کہ پھر کبھی دکھائی نہیں دیا تھا۔ وہی آدھی رات کو باقاعدہ یہاں آتا ہے اور چراغ باہر پھینک دیتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ شمال سے آنے والی سرد ہوائیں ہی ان چراغوں کو دھکیلتی ہوئی دروازے سے باہر لے جاتی ہیں اور یہ چراغ اس عمل کے دوران ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔ 

جی جی گاؤں کا سب سے متمول آدمی ناصر خاں تھا جس کی زرعی اراضی بیس مربعوں پر مشتمل تھی اور جس کی حویلی کے دالان میں سوکے قریب چارپائیاں بچھائی جاسکتی تھیں۔ ناصرخاں ان آبادکاروں میں سے تھا جو سب سے پہلے یہاں آئے تھے۔ آدمی تجربہ کار اور معاملہ فہم تھا۔ اس نے حال کے آئینے میں مستقبل کے واضح خدوخال دیکھ لیے تھے وہ کشتیاں جلا کر یہاں آیا تھا یعنی اس نے اپنی تھوڑی سی شہری جائیداد فروخت کردی تھی اور ہمیشہ کے لیے اس اجاڑ مقام پر رہائش پذیر ہو گیا تھا۔ اس نے وقت سے فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ اراضی پر اپنی ملکیت جمالی تھی۔ پیسہ پاس تھا غریب لوگوں کو اپنا مزارع بنا لیا اور اس طرح اس کی دولت اورذاتی وجاہت میں دن رات اضافہ ہونے لگا۔ 

گاؤں کے لوگوں کی تو بیشتر آبادی اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ بابا صاب کے مزار پر جاکر چراغ جلانے کی شرط پوری کرنا بہت مشکل ہے اس لیے وہ لوگ ادھر کا رخ ہی نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی کسی کے دل میں بے اختیار خواہش پیداہو جاتی تھی تو وہ اپنے کٹھن سفر پرروانہ ہوجاتا تھا۔ لیکن چوتھے پانچویں چراغ کے بجھ جانے پر اس کی اپنی طبیعت اس طرح بجھ جاتی تھی کہ وہ پھرزندگی بھر ادھر کا رخ نہیں کرتاتھا ۔ البتہ شہر سے کوئی نہ کوئی آتاہی رہتاتھا اور جو بھی آتا تھا وہ سیدھا ناصر خاں کی طرف جاتا تھا اورناصر خاں اس وقت اس کے رہنے سہنے کا بندوبست اپنی حویلی میں کردیتاتھا اور پہلے دن کے بعد اس سے یکسر بے نیاز ہو جاتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ مہمان دو تین جمعراتیں ہی یہاں بسر کرے گا اور جاتے ہوئے ملے گا بھی نہیں۔ 

مہینے میں ایک دو قسمت آزما ضرور آجاتے تھے۔ کوئی مرد تو شاذہی آتاتھا۔ عام طور پر عورتیں اور وہ بھی عمر رسیدہ آتی رہتی تھیں مگراس مرتبہ ایسا ہوا کہ تین مہینے گزر گئے اور ناصرخاں کی حویلی کے بڑے پھاٹک پر کسی نے بھی دستک نہ دی۔نہ جانے گاؤں والوں کو اس سے اپنی اجتماعی زندگی میں ایک خلا کیوں محسوس ہونے لگا تھا ۔ چوپال میں جب بھی کچھ لوگ بیٹھتے تھے تو ہیر رانجھا یا زیتون نامہ سننے سے پہلے اس کمی کا تذکرہ ضرور کرتے تھے اور ناصر خاں کے منشی منظورے کو تویقین ہوگیا تھا کہ اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ چنانچہ اس نے حویلی کے چوکیدار سے کہہ دیا تھا۔ 

’’چاچا رات کو آرام سے سوجایا کر۔ بابا صاب کے مزار پر کوئی نہیں آئے گا‘‘۔ 

اور چوکیدار چاچا مرزہ نے یہ بات پلے باندھ لی تھی۔ وہ اس امر سے بے نیاز ہو گیا تھا کہ جمعرات کو کوئی شخص مٹی کا چراغ اور ماچس لے کرحویلی سے نکلے گا اور آدھ رات سے پہلے پہلے لوٹ آئے گا۔ وہ پھاٹک کے پہلو میں رکھے ہوئے بنچ کے اوپر بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگتا تھا اور پھراونگھتے اونگھتے سو جاتا تھا۔ 

چوتھے مہینے کا پہلا ہفتہ شروع ہو گیا تھا۔ شام گہر ی ہوتی جارہی تھی کہ جاگیر دار ناصرخاں اپنی سفید گھوڑی سے نیچے اترا اور اسے مرزہ کے حوالے کر کے پھاٹک کی طرف جارہا تھا کہ ایک بوڑھیا نے جس کا لباس میلا کچیلا تھا اور جس نے ہاتھ میں ایک تھیلا اٹھا رکھا تھا، پھاٹک کے پاس ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔ 

ناصر خاں بارہا ایسے لوگوں سے پھاٹک کے سامنے مل چکا تھا اس لیے یہ اندازہ لگانے میں اسے کوئی دقت نہ ہوئی کہ یہ عورت کس مقصد کے ساتھ آئی ہے اور اس سے کیا توقع رکھتی ہے ۔ 

’’ٹھیک ہے‘‘۔ ناصرخاں نے رٹا رٹایا جملہ بوڑھیا کی طرف پھینک دیا۔ 

ناصرخاں جب یہ جملہ زبان سے نکالتا تھا تو اسے کچھ اور کہنے سننے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ چوکیدار مہمان کو ساتھ لے کر اسے حویلی کے ایک کمرے میں پہنچا دیتاتھا اور اس وقت اس کے قیام تک کھانے پینے کا بھی بندوبست کردیتا تھا۔ 

ناصر خاں پھاٹک کے اندرچلا گیا تھا۔ معمول کے مطابق بوڑھیا کو چوکیدار کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے قدم اٹھانا چاہیے تھا مگر وہ وہیں کھڑی رہی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہواتھا تو اب کیوں ہو رہا تھا۔ ناصرخاں چند قدم چل کر رک گیا۔ 

’’مرزہ‘‘۔ اس نے چوکیدار کو پکارا۔ 

چوکیدار نے بوڑھیا کو چلنے کااشارہ کیا اور وہ چلنے لگی۔ 

ناصرخاں نے پھاٹک کے اوپر جلتے ہوئے سوپاور کے بلب کی روشنی میں بوڑھیا کو دیکھا۔ اس چہرے میں اسے ایک عجیب کیفیت کا احساس ہوا ۔ اسے یاد آگیا کہ ایسی کیفیت اس نے اس دھوبن کے چہرے پر بھی دیکھی تھی جو مزار پرساتواں چراغ جلاکر مراد پاچکی تھی۔ 

’’توکون ہے؟‘‘ جاگیردار کے لہجے میں کرختگی تھی۔ 

’’میں۔۔میں‘‘بوڑھیا بس یہی لفظ کہہ سکی۔ 

وہ گھورگھور کر اسے دیکھ رہا تھا۔ 

’’اماں! توکرتی کیا ہے؟‘‘ 

’’پتر میں توبن‘‘۔ 

ناصر اس کے قریب آگیا۔ 

’’توبھی؟‘‘ 

بوڑھیا اس کا مطلب نہ سمجھ سکی۔ 

’’اماں تو بھی ساتواں چراغ جلالے گی‘‘۔ 

بوڑھیا کے چہرہ جو پہلے تذبذب کا تاثر لیے ہوئے تھا اس پر ایک ایسا نور جھلملانے لگا جو طلوع آفتاب کے وقت مشرقی افق پر تھوڑی دیر کے لیے برقرار رہتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ 

ناصر خاں چند لمحے وہاں ٹھہر کر چلاگیا۔ 

بوڑھیا کمرے میں داخل ہوئی تو اس کی نظر سب سے پہلے مٹی کے ان چند چراغوں پر پڑی جو ایک طرف ایک چھوٹی سی میز کے اوپر پڑے تھے۔ چراغوں کے پاس کچھ روئی بھی نظر آرہی تھی۔ 

میزکے علاوہ کمرے کے اندر ایک چارپائی بھی تھی۔ ٹین کا ایک لوٹا، ایک دیگچی اور اس قسم کی گھریلو استعمال کی کچھ اور چیزیں بھی موجود تھیں۔ 

چوکیدار بجلی کا بلب روشن کر کے کمرے سے باہرنکل گیا۔ بوڑھیا دروازے کے قریب رک کر کمرے کا جائزہ لیتی رہی۔ اسکے دل میں ایک ہیجان سا برپا ہوگیا۔ اس نے اپنا تھیلا میزکے اوپر رکھ دیا اور اس کی انگلیاں ان چراغوں کو چھونے لگیں جن میں تیل کی ایک بوند بھی نہیں پڑتی تھی۔ اسے یکایک خیال آیا کہ جو بھی یہ چراغ لایا ہوگا وہ کتنی آس کے ساتھ آیا ہوگا اور پھر مایوس ہو کر چلا گیا ہوگا۔ 

اسے اپنا خیال آگیا۔ وہ ایک ایسے کپڑے کی طرح تھی جس کو دھو کر پوری طرح اس کا پانی نہ نچوڑا گیا ہو اور اس حالت میں سبزگھاس پر بکھیر دیا گیا ہو۔ 

دھوپ کی شدت کپڑے کے اس باقی پانی کو بھی چوس لے گی۔ 

اس کا سرگھومنے لگا اور وہ چارپائی پر گرنے ہی والی تھی کہ جاگیردار کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجنے لگے ’’وہاں تو بھی ساتواں چراغ جلالے گی‘‘ اور اس کے باطن میں پھر ایک اضطراب پیدا ہوگیا۔ 

جمعرات آنے میں دو دن باقی تھے۔ دوسرے دن صبح سویرے اس نے تھیلے میں سے ساری چیزیں میز پر انڈیل دیں۔ ان میں کڑوے تیل کی ایک بڑی بوتل تھی ۔ دس بارہ مٹی کے چراغ اور روئی کا ایک بنڈل۔ 

جس وقت وہ تھوڑی تھوڑی روئی لے کربتیاں بنا رہی تھی توایک دم اسے احساس ہوا کہ وہ کسی اجنبی جگہ پر نہیں، موچی دروازے کے اندر اپنے چھوٹے سے جدی مکان میں ہے اور ہانڈی چولہے پر رکھ کر پرانے مونڈھے پر بیٹھی دروازے کی طرف ٹکٹکی باندھ کردیکھ رہی ہے جہاں وہ چہرہ نظرنہیں آتا جو نو سال پہلے غائب ہو گیا تھا۔ 

شوہر کی وفات کے بعد اس کا بیٹا چراغ دین ہی اس کاواحد سہارا تھا۔ بارہ سال تک وہ بڑا ذمے دار بیٹا بنا رہا۔ 

ماں کو کبھی اس سے کسی قسم کی شکایت نہ ہوئی۔ محلے کے بیسیوں گھروں تک جانا،وہاں سے میلے کپڑے لانا، ہر ہفتے ان سب کپڑوں کی لدیاں بنا کر دریا پر لے جانا۔ دوسروں کے ساتھ مل کر انہیں دھونا اور پھیلی ہوئی ریت پرسکھانے کے لیے پھیلا دینا، شام کے بعد انہیں اپنے بیل پر لاد کر گھرلے آنااور رات کو گیاہ بارہ بجے تک ان پر استری پھیرکر الگ الگ گاہکو ں کے کپڑے تہ کرکے رکھ دینا اور دوسرے روز صبح سے لے کر تیسرے پہرتک گھرگھر کپڑے پہنچا کر اجرت وصول کرنا، یہ سب کام وہ بڑی باقاعدگی کے ساتھ کرتا رہتا۔ ان سب کاموں میں اس کی ماں بھی برابر اس کی مدد کرتی رہتی تھی مگروہ چاہتا نہیں تھا کہ ماں کی بوڑھی ہڈیوں کو تکلیف دے۔ 

تیرھواں سال شروع ہوا تو نہ جانے کس طرح اسے جوئے کی لت پڑگئی۔ کئی دن اور کئی راتیں حوالات میں بھی گزاردیں۔ لیکن یہ لت دور نہ ہو سکی بلکہ بڑھتی چلی گئی۔ ایک رات وہ بڑی دیر سے گھر میں آیا۔ صبح اسے ایک ہمسائی نے بتایا کہ اسے گرفتار کرنے کے لیے پولیس آرہی ہے۔ اس نے ابھی کلچے کا ایک ہی لقمہ دہی میں لتھڑا کرحلق سے اتارا ہوگا کہ جلدی سے پاؤں میں جوتے ڈال کر سیڑھیوں سے اترنے لگا۔ ماں پیچھے آوازیں ہی دیتی رہ گئی۔ 

اس کے بعد اس کی ماں اس کی صورت نہ دیکھ سکی۔ 

اس کی زندگی کے سب سے خوشگوار اور مسرت بخش وہ لمحے ہوتے تھے جب وہ دروازے پرکھڑی ہو کر اپنے بیٹے کے بیل کی گھنٹیوں کی آواز سنا کرتی تھی۔ یہ بیل شام کے بعد واپس گلی میں داخل ہوتاتھا اور گلی میں داخل ہوتے ہی اس کی گھنٹیاں بجنے لگتی تھیں۔ گھنٹیوں کی آواز سن کروہ تیزی سے دروازے پر آکھڑی ہوتی اور جب تک ایک ایک کر کے ساری لدیاں اندررکھوا نہیں لیتی تھی اسے چین نہیں پڑتاتھا۔ 

وہ سارے کام مزے لے لے کر کرتی تھی۔ استری میں سے بچی کچھی راکھ باہرنکالتی تھی، لمبے چوڑے تختے پرجس کے اوپر ایک ایک کپڑا بچھا کر استری کی جاتی تھی، اس کی چادر بدل دیتی تھی، کوئلوں کے ڈھیر پر ایک نظرڈال کر یہ اندازہ کرلیتی تھی کہ ان سے کام چل سکتا ہے یا نہیں، نیم سوختہ کوئلے رکھ کر باقی راکھ ملے باہر پھینک دیتی تھی۔ 

چراغ ابھی گھر سے دور ہی ہوتاتھا کہ وہ صدقے جاواں واری جاواں کہہ کر اس سے جا کر لپٹ جاتی تھی۔ 

مگرپچھلے نو سال سے اس کے گھر میں اوراس کے دل میں تاریکیاں ہی تاریکیاں چھا چکی تھیں۔ 

اپنے بیٹے کو پانے کی خاطر اس نے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ سیانوں نے جو کچھ کہا تھا وہ کرچکی تھی مگر اب وہ تھک چکی تھی۔ بالکل مایوس ہو چکی تھی کہ اس نے بابا صاب کی کرامت کا حال سنا اور وہ اسے آخری سہاراسمجھ کرجاگیردار کے یہاں آگئی۔ 

اس کی آنکھیں دروازے پرجمی تھیں اوراس کی انگلیاں متواتر حرکت کررہی تھیں۔ اس کے سامنے بتیوں کا ایک ڈھیر لگ گیا تھا۔ 

اتنی ساری بتیاں۔ اچار ڈالنا ہے؟ 

یہ الفاظ جاگیردار ناصرخاں نے کہے تھے جو شاید جب سے حویلی بنی تھی تیسری مرتبہ اس کمرے میں داخل ہوا تھا۔ 

بوڑھیا نے ایک نظر بتیوں پرڈالی اور پھرناصرخاں کودیکھنے لگی جس کی مونچھوں کے بال جھک کر ٹھوڑی کو چھونے کی کوشش کررہے تھے۔ 

’’میں نے سناہے تمہارا بیٹانو سال سے غائب ہے‘‘۔ 

بوڑھیا نے اثبات میں سر ہلادیا۔ 

ناصرخاں چارپائی پر بیٹھ گیا۔ 

’’تمہارانام کیا ہے؟‘‘ اس نے بوڑھیا سے پوچھا۔ 

’’فاطمہ‘‘۔ 

’’فاطمہ‘‘ ناصر خاں نے چند سیکنڈ بوڑھیا کو گھورکر دیکھا اور پھریوں سرہلانے لگا جیسے اس کے دل میں کسی بات کی تصدیق ہوگئی ہے۔ 

’’کوئی تکلیف؟‘‘ 

بوڑھیا نے نفی میں سرہلا دیا۔ 

کمرے سے باہر ناصرخاں کا منشی ہاتھ میں حساب کتاب کے لمبے لمبے رجسٹر لیے اپنے مالک کے فارغ ہونے کا انتظارکر رہا تھا۔ ناصرخاں کی اس پر نظر پڑی تو دروازے کی طرف جانے لگا۔ 

جمعرات کی شام کوجھکڑ چلنا شروع ہو گیا تھا۔ بوڑھیا نے چراغ میں بتی اورتیل ڈالا دوسرے ہاتھ میں ماچس پکڑی بسم اللہ کہہ کر تنہا مزار کی طرف روانہ ہو گئی۔ 

کسان کھیتوں سے لوٹ رہے تھے اور ان کے بیلوں کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ بوڑھیا کے قدموں میں تیزی آگئی۔ سنسان راستوں سے گزرتی ہوئی وہ مقبرے کے اندر داخل ہوگئی۔ اندر داخل ہوتے وقت بھی اس کے کانوں میں بیلوں کی گھنٹیوں کی آواز گونج رہی تھی اور وہ ان سرما کی ہواؤں سے بے نیاز تھی جس کے جھونکے مقبرے کی دیواروں سے ٹکرا کر مسلسل شور برپاکررہے تھے۔ 

اس نے تیلی کو ماچس کے کنارے پر رگڑا ، آہستہ سے اسے بتی کی لو کی طرف بڑھایا ۔ ایک ہلکی سی روشنی پھوٹ پڑی۔ جلتا ہوا چراغ اسے مزار کے ایک طرف رکھ دیا۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اورچند لمحوں بعد انگلیوں سے رخساروں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کو خشک کرکے جلتے ہوئے چراغ پرآخری نظر ڈال کر باہر نکل گئی۔ 

وہ قدم اٹھارہی تھی مگراسے احساس نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے، کہاں جارہی ہے۔ یکایک حویلی کے چوکیدار نے کرخت لہجے میں پوچھا۔ 

’’کیاہوا مائی صاب؟‘‘ 

بوڑھیا نے اپنی شہادت کی انگلی اوپراٹھائی اور پھاٹک میں سے نکل گئی۔ 

کمرے میں جا کر اس نے ماچس میز کے اوپر رکھ دی ، چارپائی پر جا بیٹھی۔ اس نے دیکھا کہ کمرے کے اندر آتے وقت اس نے دروازہ بندکردیا تھا۔ بند دروازہ دیکھ کر اس کے ذہن میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ اس وقت وہاں جا کر اس کے دونوں پٹ کھول دئیے اور ٹکٹکی باندھ کر ادھر دیکھنے لگی۔ 

دوسری، تیسری ، اور پھر چوتھی جمعرات بھی گزر گئی اور بادشمال کے سرد جھونکے اس کے جلائے ہوئے چراغوں کی لوؤں کاکچھ نہیں بگاڑ سکے تھے۔ 

پانچویں جمعرات کو جب اس نے چراغ جا کر مزار کے پہلو میں رکھا اور مدھم روشنی میں دعا کے لیے ہاتھ پھیلائے تو اسے یکدم احساس ہوا کہ ایک سایہ اس کے قریب حرکت کررہا ہے۔ اس احساس کے باوجود اس کے نم آلود ہونٹ لرزتے رہے۔ 

دونوں ہاتھ منہ پرپھیر کر وہ مڑی اور اس نے دیکھا کہ ایک جلتاہوا چراغ مزار کے دوسرے پہلو کی طرف جھکاجارہا ہے اور دوسرے ہی لمحے میں اسے ایک دھندلا سا چہرہ دکھائی دینے لگا جس کے گرد دوپٹہ لپٹا ہوا تھا۔ 

دو تین لمحوں کے لیے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں کے ہونٹ لرزتے رہے اور پھردونوں کی نظریں جھک گئیں۔ 

ہوا تندو تیز تھی۔ اوپر کسی اڑتے ہوئے پرندے کی چیخ فضا میں تحلیل ہوگئی۔ وہ جب حویلی کے پھاٹک پرپہنچی تو اس مرتبہ چوکیدار مرزہ نے کوئی سوال نہ کیا اور پھاٹک کا ایک پٹ کھول دیا۔ 

’’یہ کون ہے؟‘‘ اس نے چارپائی پرلیٹ کر خود سے سوال کیا۔ 

’’کوئی ہوگی، میری طرح بدنصیب، دکھیا ری‘‘۔ 

چھٹی جمعرات کو وہ بابا صاحب کے مزار کے پاس پہنچی تو اسے مزار کے پہلو میں ایک جلتا ہوا چراغ نظرآیا۔ اس چراغ کے ساتھ پانچ اورچراغ تھے جو بجھ چکے تھے مگر لگتا تھا اس چھٹے چراغ کی لو سے جو مدھم سی روشنی پھوٹ رہی ہے وہ ایک روشن لکیرکی طرح ان کے اوپر پھیل گئی ہے۔ 

اس نے اپناچراغ جلایا اور چراغوں کے پہلو میں رکھ دیا اور جب دونوں ہاتھ پھیلا کر سینکڑوں باردہرائے ہوئے الفاظ اپنے ہونٹوں سے نکالنے لگی تو اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی قطاریں نکلنے لگیں۔ اس نے دونوں ہاتھ نیچے کر کے اپنی جھولی کے کناروں کو پکڑ لیا اور آنسوٹپ ٹپ اس کی جھولی میں گرنے لگے۔ اس نے آنسو بھری آنکھوں سے سامنے دیکھا اس کاچراغ جل رہا تھا اوردوسری طرف دوسرا چراغ بھی جل رہاتھا۔ اس نے یکایک محسوس کیا کہ دونوں چراغوں کی لویں اس کے آنسوؤں میں سے گزرتی ہوئی آنکھوں کے اندر چلی جارہی ہیں۔ 

وہ دیر تک جھولی پھیلائے کھڑی رہی۔ 

اس رات وہ بڑی دیرتک وہاں بیٹھی رہی اور جب آثار سحر نمودار ہونے لگے تومقبرے سے باہر نکل آئی۔ 

باہر نکلتے وقت اس نے ایک لمحے کے لیے پلٹ کردیکھا۔ ذرا فاصلے پر دونوں چراغ روشن تھے۔ 

آخر ساتویں جمعرات آگئی۔ 

دور عشاء کی نماز کی اذان بلندہوئی تو اس نے چراغ بتی اور ماچس سنبھالی اور بسم اللہ کہہ کر چلنے لگی۔ 

اوپر ستارے چمک رہے تھے،اورہوا خاصی تیز تھی۔ وہ خاموش، ویران راہ پر قدم اٹھائے مقبرے کی طرف جارہی تھی۔ 

کسی قریبی علاقے میں شدید بارش ہوئی تھی جس کا پانی بہتاہوا نشیبی حصوں میں آکر جابجا ٹھہر گیا تھا۔ کہیں کہیں یہ پانی زیادہ گہرا تھا اور اسے بڑی مشکل سے آگے بڑھنا پڑتا تھا۔ 

جب وہ مزار کے قریب کھڑی تھی تو اس کے دل میں ایک ہیجان برپا تھا اس کا ہاتھ کانپ رہاتھا اور سانس جیسے 

سینے میں رک سا گیا تھا۔ 

اس نے ماچس کی تیلی جلائی۔ چراغ کی لوکی طرف بڑھائی اورچراغ روشن ہو گیا۔ 

یہ چراغ آہستہ آہستہ مزار کی طرف بڑھنے لگا۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ اس کے پاس کوئی کھڑا ہے ۔ ایک آہ اس کے کان تک جاپہنچی تھی۔ 

اس نے سامنے دیکھا ۔ مزار سے کچھ اوپر ایک بجھا ہوا دیا اور اس سے ذرا فاصلے پر ایک ایسا چہرہ جو اس طرح نظر آرہاتھا جیسے اس پر سکتے کاعالم طار ی ہو۔ ایک گرم گرم لہر اس کے سارے جسم میں سرایت کر گئی۔ 

اس کاہاتھ مزار کی طرف حرکت کرنے کی بجائے اوپر جانے لگا۔ دوسرے لمحے میں بجھا ہوا چراغ اس کے اپنے ہاتھ میں تھا اور اس کا جلتاہوا چراغ اس مایوس عورت کے ہاتھ میں جو ایک کھنڈر کی دیوار کی طرح جھکی ہوئی تھی۔ 

تین چار لمحوں ہی میں یہ سب کچھ ہوگیا۔ 

بجھا ہوا چراغ لے کروہ ایک سیکنڈ بھی وہاں نہ ٹھہری۔ مقبرے سے باہر آگئی اور مشرق کی طرف چلنے لگی۔ 

ہوا کے تندو تیز تھپیڑے اس کے جسم سے ٹکرا رہے تھے۔ باربار اس کے قدم لڑکھڑا جاتے تھے ۔مگر وہ برابر چلی جارہی تھی۔ آگے ہی آگے کسی منزل کا تصور کیے بغیر جیسے دور سے کسی نے اسے اشارہ کردیاہو اوروہ کہیں بھی رکنا نہ چاہتی ہو۔ 

پھر بارش ہونے لگی اور بارش کے بھاری بھاری قطرے چراغ کے کناروں پر اور چراغ کے اندر گرنے لگے۔ جب یہ قطرے چراغ کے کناروں سے لگتے تھے تو ٹن کی ہلکی سی آواز آنے لگتی تھی۔ 

اس کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئیں۔ اس کے تھکے ہوئے ضعیف پاؤں میں ایک نامعلوم سی قوت آگئی۔ 

بارش کے قطرے گر رہے تھے۔ آواز بلندہوتی جارہی تھی۔ ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن۔ 

وہ کہیں بھی نہ رکی ۔ تیز و تندہوائیں برابر چل رہی تھیں۔ بارش بڑھتی جارہی تھی۔ 

پھر یوں ہوا کہ بارش تھم گئی مگرہواؤں کی تندی و تیزی میں کوئی فرق نہ آیا۔ 

صبح ہوگئی تھی۔ کسان اپنے اپنے بیلوں کو لیے کھیتوں کی طرف جارہے تھے۔ 

اچانک ان کے قدم رک گئے۔ ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھیا چلی جارہی ہے اور طوفانی ہواؤں میں اس کے ہاتھ میں تھما ہوا چراغ جل رہا ہے۔ 

بوڑھیا کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیاہوا ہے۔ اس کے اردگرد کیاہورہا ہے۔ اس نے چراغ کی طرف ایک لمحے کے لیے بھی نہیں دیکھا تھا وہ چلی جارہی تھی ا ور اس کے دائیں بائیں اور پیچھے حیران و سراسیمہ لوگ قدم اٹھا رہے تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور اس کے وسطی حصے میں ایک نو تعمیر شدہ مقبرے کی دیواریں کھڑی ہیں۔ 

قصبے کے لوگوں کا اعتقادہے کہ یہاں ایک بزرگ خاتون دفن ہے جس کا چراغ طوفانی ہواؤں میں بھی جلتا رہا تھا۔ اس لیے اسے چراغ بی بی کہتے ہیں۔ 

ہر روز عقیدت مند یہاں آتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں۔ خاص طور پروہ لوگ جن کے بچے گم ہو گئے ہیں۔ 

مزار کے سرہانے ایک مٹی کا چراغ ساری رات جلتارہتا ہے۔ 

   1
0 Comments